Add Poetry

کہہ دوں نا

Poet: Ahsan Mirza By: Ahsan Mirza, Karachi

(سیاسی سے زیادہ یہ ملکی مفاد کی شاعری ہے۔ ایک درخواست ان ملکی رہنمائوں سے جنہیں ہر سوال کا جواب اور بہت خوب جواب آتا ہے۔ قیمتی آراء کا طلبگار)

ترستی قوم کے نغمے کو قومی ترانہ کہہ دو نا
آنکھوں سے نکلتے آنسوں کو ڈھونگ رچانا کہہ دو نا

روٹی کو تڑپتے لوگوں کی فریاد تو کوئی سن لو نا
اور سن کے آخر میں اس کو رونے کا بہانا کہہ دو نا

دولت کی مسرت نے تم کو عیاش بنائے رکھا ہے
تم اس کو وطن کی عزت کا اک بہانا کہہ دو نا

کچھ کر نہ سکے تم سالوں میں اب بھلا کیا کرلو گے
ان باتوں کو تم ہاتھوں پر سرسوں کا جمانا کہہ دو نا

صادق بن کے تم بھی کبھی سچائی لبوں پر لائو اور
لوگوں کو ڈھارس دینے کو لوگوں کو ہنکانا کہہ دو نا

سو شکوے، سو شکایتیں تم روز سنا ہی کرتے ہو
ان شکوے کو اس دھرتی کا تم لوک فسانہ کہہ دو نا

ہم آج بھی اپنے سینوں میں امید کے دیپ جلائے ہیں
اس امید کا تم سے لگنے کو تم دل کا جلانا کہہ دو نا

غربت اور قلت چیزوں کی لے کر جاتے ہو دنیا میں
ان چیزوں کو اب دھرتی کا دیسی نذرانہ کہہ دو نا

مرتے ہیں لوگ دھماکوں میں، یہ دنگوں میں مر جاتے ہیں
ان حالات کے پلٹا کھانے کو تم خواب سہانا کہہ دو نا

پلتا ہے موت کے خوف کے ساتھ احساس بھی زندہ رہنے کا
اس احساس کے میرے ہونے کو تم خواب سہانا کہہ دو نا

جلتے ہیں گلی بازار یہاں ہر روز قیامت ہوتی ہے
اس آگ اور خوں سے شہروں میں یہ جشن پرانہ کہہ دو نا

گر کچھ بھی شرم ہے تم میں ابھی غیرت کے مارے مر جاؤ
ورنہ بے غیرت بن کر احسن کو تم لوگ دیوانہ کہہ دو نا

Rate it:
Views: 552
03 Aug, 2011
More Political Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets