کہ جس کو دیکھے ہوئے آج اک زمانہ ہوا
وہ شخص اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہوا
خزاں نے دل میں مرے گھر بنالیا اپنا
کہ زرد پتوں کا اب اک نیا ٹھکانہ ہوا
کسے بلاتی ہیںآنگن کی سرمئ شامیں
اسیر عشق ہوئ جب سے دل رہا نہ ہوا
کبھی نہ جان سکی اسکےدل میںکیاہے چھپا
مر ی و فا سے کبھی وہ بھی آشنا نہ پوا
نکال پھینکتی کیسے میں کاٹ کر اسکو
مر ے وجود کا حصہ تھا جو جدا نہ ہوا
تمام عمر محبت میں سر جھکاتی رہی
جبین شوق کا سجدہ کوئ قضا نہ ہوا
اسی کے نام پہ لکھتی ہوں یہ حیات غزل
وہ ایک شخص جو شاید کبھی مرانہ ہوا