کیا کسی رابطے میں رکھا ہے
ہم نے دل راستے میں رکھا ہے
اب خداؤں کی کیا ضرورت ہے
آئنہ بت کدے میں رکھا ہے
نا تمہاری خطا ہے نا میری
مسئلہ مسئلے میں رکھا ہے
رات رکھی ہے اس نے دن کے بعد
آپ کو فائدے میں رکھا ہے
اس کو انداز ہے تسلسل کا
زلف کو سلسلے میں رکھا ہے
کیا رکھا ہے پرانی چیزوں میں
جو نیا ہے نئے میں رکھا ہے
اگلے وقتوں پہ سوچ کر عامرؔ
وقت کو قاعدے میں رکھا ہے