کیا کہیں تجھ سے کہ کس کس کے کرم ہیں ہم ہیں
Poet: وصی شاہ By: Ghulam, Peshawar
کیا کہیں تجھ سے کہ کس کس کے کرم ہیں ہم ہیں
کچھ ترے کچھ تری دنیا کے ستم ہیں ہم ہیں
تو نے پوچھا ہے تو احوال بتا دیتے ہیں
بس تری یاد ہے اور آخری دم ہیں ہم ہیں
ہائے کیا جان کے دروازہ نہ کھولا اس نے
ہم پکارا ہی کیے یار یہ ہم ہیں ہم ہیں
کیسے کیسے وہ کیا کرتا ہے وعدے ہم سے
صبح سے شام تلک اس کے بھرم ہیں ہم ہیں
ساقیا ہم سے بھی دیرینہ مراسم ہیں ترے
یہ جو محروم قدح غرق الم ہیں ہم ہیں
تو ہی شیرازۂ جاں ہے تو ہی شیرازۂ دل
جب تلک ہم پہ ترے جور و ستم ہیں ہم ہیں
جن کو مجنوں بھی کیا کرتا ہے جھک کر داب
گرچہ اس طرح کے عاشق بڑے کم ہیں ہم ہیں
یہ ہمارا ہے کسی اور کا لاشہ تو نہیں
کس لیے آنکھ کے گوشے ترے نم ہیں ہم ہیں
ساقیا حفظ مراتب کا ذرا دھیان رہے
ایسا لگتا ہے کہ معیار سے کم ہیں ہم ہیں
غیر کے دم سے ہے رونق بھی چراغاں بھی وصیؔ
تیری محفل میں اگر سبز قدم ہیں ہم ہیں
اگر وہ خوش ہے مجھے بے قرار کرتے ہوئے
تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے
میں مسکراتا ہوا آئنے میں ابھروں گا
وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے
مجھے خبر تھی کہ اب لوٹ کر نہ آؤں گا
سو تجھ کو یاد کیا دل پہ وار کرتے ہوئے
یہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں یہ آنکھیں ہیں
میں ان میں ڈوب گیا اعتبار کرتے ہوئے
بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں
تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نہ جانے ہو گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تمہاری آنکھوں میں جس قدر تھے وہ خواب سارے جھلس گئے ہیں
مری زمیں کو کسی نئے حادثے کا ہے انتظار شاید
گناہ پھلنے لگے ہیں اجر و ثواب سارے جھلس گئے ہیں
جو تم گئے تو مری نظر پہ حقیقتوں کے عذاب اترے
یہ سوچتا ہوں کہ کیا کروں گا سراب سارے جھلس گئے ہیں
یہ معجزہ صرف ایک شب کی مسافتوں کے سبب ہوا ہے
تمہارے اور میرے درمیاں کے حجاب سارے جھلس گئے ہیں
اسے بتانا کہ اس کی یادوں کے سارے صفحے جلا چکا ہوں
کتاب دل میں رقم تھے جتنے وہ باب سارے جھلس گئے ہیں
نظر اٹھاؤں میں جس طرف بھی مہیب سائے ہیں ظلمتوں کے
یہ کیا کہ میرے نصیب کے ماہتاب سارے جھلس گئے ہیں
تمہاری نظروں کی یہ تپش ہے کہ میرے لفظوں پہ آبلے ہیں
سوال سارے جھلس گئے ہیں جواب سارے جھلس گئے ہیں
یہ آگ خاموشیوں کی کیسی تمہاری آنکھوں میں تیرتی ہے
تمہارے ہونٹوں پہ درج تھے جو نصاب سارے جھلس گئے ہیں
Mujhe Bhi Raas Hai Tu
Tera Libaas Hoon Main
Mera Libaas Hai Tu
Ajeeb Shay Hai Mohhabbat Ke Hum Kaheen Jayein
Tere Khareeb Hoon Main Mere Aas Paas Hai Tu
Kab Yeh Mumkin Hai Ke Koi Humko Juda Kar Jaaye
Main Hoon Na Hoon Meri Jaan Mera Maas Hai Tu
Bandh Hothon Pay Meri Reath Jamee Jaati Hai
Tu Mere Paas Hai Aur Phir Bhi Meri Pyaas Hai Tu
Main Nay Khud Ko Faramosh Kiya Tere Liye
Aam Hai Saara Jahan, Mere Liye Khaas Hai Tu
Darmiyaan Tere Mere Jab Say Log Aanay Lagay
Main Us K Baad Say Tanha Hoon Aur Be-Aas Hai Tu
Main Khush-Naseebi Hoon Teri Mujhe Bhi Raas Hai Tu
Tera Libaas Hoon Main Mera Libaas Hai Tu
تیرا لباس ہوں میں اور میرا لباس ہے تو
عجیب شے ہے محبت کے ہم کہاں جائیں
تیرے پاس ہوں میں بھی میرے بھی پاس ہے تو
میں نے خود کو فراموش کیا تیرے لیے
عام ہے سارا جہاں میرے لیے خاص ہے تو
بند ہونٹوں پر میرے ریت جمی جاتی ہے
میرے پاس ہے پھر بھی میری پیاس ہے تو
درمیان تیرے میرے جب سے لوگ آنے لگے
اس کے بعد سے میں تنہا اور بے ایس ہے تو
زمانہ ہم کو جدا کر سکے نہیں ممکن
محبت میں جو ناخن ہوں میں تو ماس ہے تو
دور ہو کر بھی نہیں ہے کوئی دوری
تیرے قریب ہوں میں میرے بھی پاس ہے تو
یہ کون تیرے میرے درمیان ہے جاناں
کے میں بے درد میں ہوں اور محو یاس ہے تو
زندگی میری تیرے گرد گھومتی ہے فقط
عام ہے سارا جہاں میرے لیے ایک خاص ہے تو
عجیب شے ہے محبت میں کہیں چلا جاؤں
تیرے قریب ہوں میں اور میری پیاس ہے تو






