کیسا ہے یہ زمانہ کہ سب کچھ بدل گیا
سمجھا تھا جس کو لزکی وہ لڑکا نکل گیا
دیکھا جہاں کو غور سے تفریق نہ ہو سکی
میڈم کے ہی گماں میں مسٹر ہی مل گیا
ہر ایک کی زباں پر ہے سب سے بڑا روپیّہ
جو بھی متاعٍ دیں تھا وہ پیسے میں رل گیا
ہر شاخ پہ ہے اٌُلو تو فکرِ چمن بڑھے
ایسا بھی ہوا ہے کہ چمن ہی دہل گیا
ملتا نہیں ہے کوئی جسے رہنما کہیں
وعدوں پہ ہی تو وعدہ پر وعدہ پھسل گیا
تقریر بھی سنی تو وہ اپنے مفاد کی
ایسا بیاں بھی تھا کہ سحر سب پہ چل گیا
کیا قوم کا ہو درد کیا اس کی منزلت
اتنا کہاں شُعور جو پیسے پہ تل گیا
لگتا نہیں ہے اثر کا جی ایسے دور میں
کہنے سے ہے وہ قاصر کہ دل بھی تو جل گیا