یہ کیسے انسانوں سے مرے پالے پڑے ہیں
رحم نہیں آتا دلوں پہ تالے پڑے ہیں
عیش و عشرت کی گزاریں زندگی امراء
بیچارے غریبوں کو روٹی کے لالے پڑے ہیں
تاریکی نظر آتی نہیں اس لیئے ان کو
ان کے توگردروشنوں کے ہالے پڑے ہیں
کھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہوا انکا
منٹوں کے سفر سے پاؤں میں مرے چھالے پڑے ہیں
بجلی ہو یا نہ ہو چلتے ہیں جنریٹر انکے
تپش سورج سے قوم کے رنگ کالے پڑے ہیں
کوئ کام ہے نہ آٹا ہے نہ چینی نہ پانی
سڑکوں پہ کس پارٹی کے جیالے پڑے ہیں
جب مانگو کہ کھانے کو ہی دیدو تو کہیں
سب خزانے تلہارے لئے سنبھالے پڑے ہیں
اک طبقے کی مٹھی میں ہو جس قوم کی قسمت
دکھائیں دودھ کی نہریں خاکی پیالے پڑے ہیں
مرے وطن کو نظر بد کس کی لگی احمد
دوسروں کو بچانے والے خود نڈھالے پڑے ہیں