اقبال نےدیکھا تھا جو میرے قائد نےاپنی پلکوں پہ سجایا تھا جسے
کیوں آج لگتا ہے میرا دیس اس خواب کی تعبیر تو نہیں ہے
میرے اجداد نے اپنے خون سے روشن کیا تھا جس دیے کو
پھیلا ہے آج ہر طرف جس کا دھواں یہ وہ چراغ تو نہیں ہے
مذہب کے نام پر کاٹ رہا ہے مسلماں کو ہی مسلماں آج ڈار
میرے حسین نے سر کٹوایا تھا جس کے لیے یہ وہ اسلام تو نہیں ہے