Add Poetry

کیوں ملی تھی حیات یاد کرو

Poet: Naushad Ali By: ahmad, khi
Kyun Mili Thi Hayat Yaad Karo Kaam

کیوں ملی تھی حیات یاد کرو
یاد رکھنے کی بات یاد کرو

کون چھوٹا کہاں کہاں چھوٹا
راہ کے حادثات یاد کرو

ابھی کل تک وفا کی راہوں میں
تم بھی تھے میرے ساتھ یاد کرو

مجھ سے کیا پوچھتے ہو حال مرا
خود کوئی واردات یاد کرو

جس دم آنکھیں ملی تھی آنکھوں سے
تھی کہاں کائنات یاد کرو

بھول آئے جبیں کو رکھ کے کہاں
کہاں پہنچے تھے رات یاد کرو

دل کو آئینہ گر بنانا ہے
آئینے کے صفات یاد کرو

نکلے گا چاند انہیں اندھیروں سے
ان سے ملنے کی رات یاد کرو

چھوڑو جانے دو جو ہوا سو ہوا
آج کیوں کل کی بات یاد کرو

کرنا ہے شاعری اگر نوشادؔ
میرؔ کا کلیات یاد کرو

Rate it:
Views: 1388
30 Apr, 2019
More Naushad Ali Poetry
آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو
نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو
حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو
بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو
ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری
ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو
اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر
بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو
خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر
کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو
مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری
رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو
وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے
چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو
پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن
گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو
لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور
پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو
میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو
تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
ماہ و انجم پہ نہ پھر اپنے کبھی ناز کرے
دیکھ لے چرخ کسی دن جو ہمارے آنسو
یوں ہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشادؔ
آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو
Manahil
نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا
ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا
گھٹا چھاتی بہار آتی تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا
زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے
نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا
ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے
نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا
مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے
جلا تھا جب تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا
ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں
کنارے آپ ہوتے اور سفینہ ڈوبتا ہوتا
ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن
تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا
بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے اشارہ کر دیا ہوتا
ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے
تجھے نوشادؔ کیسی چپ لگی کچھ تو کہا ہوتا
 
Jabbar
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets