گر ہوں منصور تو سولی پہ چڑھا دے مجھ کو
اور ہوں سقراط تو لا زہر پلا دے مجھ کو
وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو
کب تلک اور جلوں آگ میں تنہائی کی
زندگی اب یہی بہتر ہے بجھا دے مجھ کو
تھرتھراتی ہوئی پلکوں پہ سجانے والے
اشک بے کار کی مانند گرا دے مجھ کو