گزرے جس راہ سے وہ سید والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبر سارا ہو کر
رخ انور کی تجلی جو قمر نے دیکھی
رہ گیا بوسہ نقش کف پا ہو کر
وائے محرومی قسمت کہ پھر اب کے برس
رہ گیا ہمرہ زوار مدینہ ہو کر
چمن طیبہ ہے کہ وہ باغ کہ باغ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبل شیدا ہو کر
صر صر دشت مدینہ کا مگر آیا خیال
رشک گلشن جو بنا غنچہ دل وا ہو کر
گوش شہ کہتے ہیں فریاد رسی کو ہم ہیں
وعدہ چشم سے بخشائیں گے گویا ہو کر
پائے شہ پر گرے یا رب تپش مہر سے جب
دل بے تاب اڑے حشر میں پارا ہو کر
ہے یہ امید رضاؔ کو تیری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانی دوزخ تیرا بندہ ہو کر