گفتگو جو ہوتی ہے سال نو سے عنبر کی
گرم ہونے لگتی ہیں سردیاں دسمبر کی
جانے والے لمحے تو لوٹ کر نہیں آتے
کاروبار دنیا کے پر یہ رک نہیں پاتے
کیوں نہ مسئلے سارے اس طرح سے حل کر لیں
سال نو کے ہر پل کو پیار کی غزل کر لیں
سجدۂ محبت سے آؤ معتبر کر دیں
سال نو کے آنگن کو خوشبوؤں کا گھر کر دیں
تن بدن امیدوں کے پھر سے مہکے مہکے ہیں
رخ نئی تمازت سے خواہشوں کے دہکے ہیں
اک نیا ورق کھولیں ہم کتاب ہستی کا
دل سبق پڑھیں پھر سے زندگی کی مستی کا
دل سے دل کے ملنے کی نقرئی صدائیں ہوں
رنگ عشق و الفت کی ریشمی ہوائیں ہوں
دل کے ساز سے پھوٹیں یوں محبتوں کے سر
ہوں خوشی کے خوابوں کے سر حقیقتوں کے سر
امن اور تحفظ سے شاد پھر رہیں ہم سب
نفرتیں نہ بانٹیں اب ملک قوم اور مذہب
دہشتوں کی لاشوں پر امن کی ردا ڈالیں
اور خزاں کے موسم کو فصل گل بنا ڈالیں
سال نو کی آمد پر مشکلیں سبھی ہاریں
اتنی ہوں اندھیروں پر روشنی کی یلغاریں
مندر و مساجد سب امن کے ہوں گہوارے
خواب علیناؔ انساں کے ہوں کبھی نہ بنجارے