گلوں پہ شبنم نہیں لہو ہے
یہ کیسی سوغات رنگ و بو ہے
بہار خنجر بہ دست آئی
ہر اک منظر لہو لہو ہے
کوئی تمنا نہیں ہے مجھ کو
سکون دل کی ہی آرزو ہے
میں اک مدت سے لاپتہ ہوں
مجھے خود اپنی ہی جستجو ہے
یہ بے دلی کی نماز تیری
گمان ہوتا ہے بے وضو ہے
اس کو اکثر میں سوچتا ہوں
مری غزل کی جو آبرو ہے
مرا نہیں ہے اسدؔ یہ چہرہ
تو کون شیشے میں روبرو ہے