گلے شکوے کے دفتر آ گئے تم
ارے ثانیؔ کہاں گھر آ گئے تم
کہانی ختم ہونے جا رہی تھی
نیا اک موڑ لے کر آ گئے تم
ہنسی میں ٹالنے ہی جا رہا تھا
مری آنکھوں میں کیوں بھر آ گئے تم
زمانہ تاک میں بیٹھا ہوا تھا
زمانے بھر سے بچ کر آ گئے تم
میں جی لوں گا اسی اک پل میں جیون
کہ جس پل میں میسر آ گئے تم
مرے سینے پہ اپنا بوجھ رکھنا
اگر بانہوں میں تھک کر آ گئے تم
دعا میں ہاتھ تھکتے جا رہے تھے
ابھی گرتے کہ یکسر آ گئے تم
ہمارا ظرف تھا سو چپ رہے ہم
مگر آپے سے باہر آ گئے تم
بسا اوقات تم کو بھول رکھا
مگر یادوں میں اکثر آ گئے تم
ابھی تم سے ہی ملنے آ رہا تھا
چلو اچھا ہوا گر آ گئے تم
محبت کی وکالت کر رہے ہو
تو کیا ثانیؔ سے مل کر آ گئے تم