ہے امن گم شدہ یہاں ایمان گم شدہ
انسان کی زمیں پہ ہے انسان گم شدہ
قرآن تو ہے لب پہ ،ہے شیطاں بھی ساتھ ساتھ
پیمان گم شدہ یہاں فرقان گم شدہ
اس کاروانِ شوق میں جذبوں کی کیا کمی
ہے عقل اور فہم کا سامان گم شدہ
منصف بھی ہیں ڈرے ڈرے مجرم کے خوف سے
قانون تار تار ہے میزان گم شدہ
اک بحرِ بے یقیں میں ہے کشتی گھری ہوئی
پتوار تو پڑے ہیں پر اوسان گم شدہ
خلقت یہاں بے زار ہے آنکھوں میں قہر ہے
احساس مر گیا کہیں احسان گم شدہ
اس مفلسی پہ کون کرے گا مرے یقیں
دل بھی ہے جان بھی مگر ارمان گم شدہ