Add Poetry

گوہر نایاب (مکالمہ : دختر غربی و دختر اسلامی)

Poet: یاور عباس بالہامی کشمیری By: Yawar Abbas Balhami, Karachi

:غرب زدگی کی شکار دختر
جہان رنگ و بو میں دیکھ میرا ہے سحر برپا
ادا کرتی ہے اک میری، جوانوں پر قہر برپا

جھلک میری جوان و پیر کو مدہوش کرتی ہے
جو ہیں باہوش اُن کو اک نظر بےہوش کرتی ہے

سبھی نظریں ٹھہرجاتی ہیں مجھ پر، جب میں چلتی ہوں
میری مٹھی میں ہے دنیا میں جو چاہوں وہ کرتی ہوں

:اسلام کی شاہکار دختر
بجا فرماتی ہو اے مغربی فکر و نظر والی
یہی حکمت ہے مغرب کی، حیا سے تو رہے خالی

رذیلوں کے لئے عیش و تماشا کر دیا تجھ کو
ہوس رانی کے دلدل میں مکمل بھر دیا تجھ کو

تیری فہم و فراست پر مسلط ہے یہی شیطاں
ہوا ہے تیری نظروں سے مقام و مرتبہ پنہاں

خدا اتنا توانا ہے، جمال و جاہ میں یکتا ہے
نہیں پھر بھی حجابوں سے کبھی باہر وہ آتا ہے

یہیں سے تم سمجھ لو جو بہت انمول شئی ہوگی
وہ ظاہر رہ نہیں سکتی حجابوں میں چھپی ہوگی

عطا کردی ہے نعمت یہ فقط اُس نے اک عورت کو
کہ ڈھانپا ہے حجابوں سے خود اس کی شکل و صورت کو

نہیں ہر ایک کی خاطر تجھے دی اس نے رعنائی
بہت انمول تیری ذات ہے سب اس کے شیدائی

حجاب اپنا گر کر راستہ سب کو دیا تو نے
گرا دی آبرو اپنی، گنوادی جو حیا تو نے

اگر حاصل تجھے پہچان اپنی ذات کی ہوتی
سماج و قوم کی حالت تو پھر کچھ اور ہی ہوتی

تو بے ہوشوں کو کر سکتی ہو داخل ہوشمندوں مںم
پھنسا سکتی ہو باطل کو تو خود اپنی کمندوں میں

تیری موجودگی پر انحصار ہے آدمیت کا
تیری آغوشِ الفت ہے دبستاں آدمیت کا

تیری نسبت ہے مریمؑ سے کہ معمارِ بشر تو ہے
ثمر انسانیت کا جس سے نکلے وہ شجر تو ہے

 

Rate it:
Views: 916
11 May, 2021
Related Tags on Occassional / Events Poetry
Load More Tags
More Occassional / Events Poetry
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
 
امید خواجہ
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets