:غرب زدگی کی شکار دختر
جہان رنگ و بو میں دیکھ میرا ہے سحر برپا
ادا کرتی ہے اک میری، جوانوں پر قہر برپا
جھلک میری جوان و پیر کو مدہوش کرتی ہے
جو ہیں باہوش اُن کو اک نظر بےہوش کرتی ہے
سبھی نظریں ٹھہرجاتی ہیں مجھ پر، جب میں چلتی ہوں
میری مٹھی میں ہے دنیا میں جو چاہوں وہ کرتی ہوں
:اسلام کی شاہکار دختر
بجا فرماتی ہو اے مغربی فکر و نظر والی
یہی حکمت ہے مغرب کی، حیا سے تو رہے خالی
رذیلوں کے لئے عیش و تماشا کر دیا تجھ کو
ہوس رانی کے دلدل میں مکمل بھر دیا تجھ کو
تیری فہم و فراست پر مسلط ہے یہی شیطاں
ہوا ہے تیری نظروں سے مقام و مرتبہ پنہاں
خدا اتنا توانا ہے، جمال و جاہ میں یکتا ہے
نہیں پھر بھی حجابوں سے کبھی باہر وہ آتا ہے
یہیں سے تم سمجھ لو جو بہت انمول شئی ہوگی
وہ ظاہر رہ نہیں سکتی حجابوں میں چھپی ہوگی
عطا کردی ہے نعمت یہ فقط اُس نے اک عورت کو
کہ ڈھانپا ہے حجابوں سے خود اس کی شکل و صورت کو
نہیں ہر ایک کی خاطر تجھے دی اس نے رعنائی
بہت انمول تیری ذات ہے سب اس کے شیدائی
حجاب اپنا گر کر راستہ سب کو دیا تو نے
گرا دی آبرو اپنی، گنوادی جو حیا تو نے
اگر حاصل تجھے پہچان اپنی ذات کی ہوتی
سماج و قوم کی حالت تو پھر کچھ اور ہی ہوتی
تو بے ہوشوں کو کر سکتی ہو داخل ہوشمندوں مںم
پھنسا سکتی ہو باطل کو تو خود اپنی کمندوں میں
تیری موجودگی پر انحصار ہے آدمیت کا
تیری آغوشِ الفت ہے دبستاں آدمیت کا
تیری نسبت ہے مریمؑ سے کہ معمارِ بشر تو ہے
ثمر انسانیت کا جس سے نکلے وہ شجر تو ہے