گھر میں ہوکر بھی پس دیوارو در ملتے نہیں
ہم جہاں ہوتے ہیں خود کو ہی ادھر ملتے نہیں
ہیں مقدر میں اندهیرے محو رقصاں دوستو
راستے روشن ہوں کتنے چارہ گر ملتے نہیں
لے گیا طوفان اب کے سب یہاں کی رونقیں
بستیاں موجود ہیں لیکن بشر ملتے نہیں
آنکھ والوں کے نگر میں دیکھنا بھی جرم ہے
ڈھونڈنے نکلو تو دھڑ ملتے ہیں سر ملتے نہیں
خشک سالی کا گلہ اب کیجیئے کس سے غزل
ڈھونڈنے نکلوں اگر چھایہ شجر ملتے نہیں