گیا تو مجھ کو سپردِ عذاب کر کے گیا
وہ شہر دل کی بھی حالت خراب کر کے گیا
وہ زخم جن کے مہکنے کا احتمال نہ تھا
انہیں بھی اپنی ہوا سے گلاب کرکے گیا
مثالِ ابر مری کشتِ جاں پہ یوں برسا
کہ روح تک مری آنکھیں چناب کر کے گیا
اسے تو خیر کہاں رت جگوں کی فرصت تھی
مرے لے مری نیندیں بھی خواب کرکے گیا
میں موج موج ہوئی اس کی مدح خواں مشہور
وہ یم بہ یم مری سوچیں سراب کرکے گیا
قرار سے نہیں رہنے دیا مجھے اس نے
وہ مجھ کو واقف صد اضطراب کر کے گیا
میں اے صدفؔ تھی مجسم سوال سرتاپا
وہ لمس لمس مجھے لا جواب کرکے گیا