ہنستے ہنستے روتی ہیں اور روتے روتے ہنستی ہیں
اونچے ایوانوں کی کچّی دیواریں کیا کہتی ہیں
بارہ دری کے آنگن میں بس آنکھ لگی تھی کوئل کی
اب اس کی آنکھیں بھی اس کی ساتھ چِتا کے جلتی ہیں
قحط زدہ اور خُشک گُلوں کی جس نے لاج نبھائی تھی
سنا ہے میں نے اس گُلبن میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں
شام ڈھلے تو پنچھی اپنے گھروں کو لوٹ کے آئے تھے
صبح سویرے کِس نے شجر کی شاخ پہ لاشیں رکھّی ہیں
کِس نے کہا تھا گِروی رکھ دو خواب نگر کی دیواریں
ہر دروازے کھڑکی پر اب راز کی باتیں لِکھّی ہیں
صحراؤں کی خاک جو چھانی تو مجھ کو معلوم ہوا
ہجرت کے بن باس نے من میں کتنی آنکھیں رکھّی ہیں