ہائے جانانہ کی مہماں داریاں
Poet: جون ایلیا By: Laraib, Layyah
ہائے جانانہ کی مہماں داریاں 
 اور مجھ دل کی بدن آزاریاں 
 
 ڈھا گئیں دل کو تری دہلیز پر 
 تیری قتالہ سرینی بھاریاں 
 
 اف شکن ہائے شکم جانم تری 
 کیا کٹاریں ہیں کٹاریں کاریاں 
 
 ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ 
 پھر تیری مجبوریاں ناچاریاں 
 
 تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار 
 تیرے دودھوں سے ہیں چشمے جاریاں 
 
 دکھ غرور حشر کے جانا ہے کون 
 کس نے سمجھی حشر کی دشواریاں 
 
 اپنے درباں کو سنبھالے رکھئے 
 ہیں ہوس کی اپنی عزت داریاں 
 
 ہیں سدھاری کون سے شہروں طرف 
 لڑکیاں وہ دل گلی کی ساریاں 
 
 خواب جو تعبیر کے بس کے نہ تھے 
 دوستوں نے ان پہ جانیں واریاں 
 
 خلوت مضراب ساز و ناز میں 
 چاہیے ہم کو تیری سسکاریاں 
 
 لفظ و معانی کا بہم کیوں ہے سخن 
 کس زمانے میں تھیں ان میں یاریاں 
 
 شوق کا اک داؤ بے شوقی بھی ہے 
 ہم ہیں اس کے حسن کے انکاریاں 
 
 مجھ سے بد طوری نہ کر او شہر یار 
 میرے جوتوں کے ہے تلوے خاریاں 
 
 کھا گئیں اس ظالم و مظلوم کو 
 میری مظلومی نما عیاریاں 
 
 یہ حرامی ہیں غریبوں کے رقیب 
 ہیں ملازم سب کے سب سرکاریاں 
 
 وہ جو ہیں جیتے انہوں نے بے طرح 
 جیتنے پر ہمتیں ہیں ہاریاں 
 
 تم سے جو کچھ بھی نہ کہہ پائیں میاں 
 آخرش کرتی وہ کیا بے چاریاں







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 