ہاں یہ سچ ہے کہ وہ ہر دل میں مکیں ہوتا ہے
یہ غلط ہے کہ وہ ہوتا ہی نہیں ہوتا ہے
تیرا ہی حسن نمایاں ہے ہر اک انساں میں
ہر بشر میں ترے ہونے کا یقین ہوتا ہے
اور بڑھ جاتا ہے کچھ شوق طلب رہرو کا
جب مسافر کوئی منزل کے قریب ہوتا ہے
حسن کیا چیز ہے نظروں کا فریب رنگیں
دیکھیے شوق سے جس کو وہ حسیں ہوتا ہے
چپکے چپکے جو ہوا کرتی ہیں دل سے باتیں
دل کے پردے میں کوئی پردہ نشیں ہوتا ہے
اس کے دیدار کا ہر شخص طلب گار نہ ہو
سامنے سب کے کوئی پردہ نہیں ہوتا ہے
جیسے مرجھائی ہوئی سی ہو کلی گلشن میں
عشق میں ایسا ہر اک قلب حزیں ہوتا ہے
منہ سے اقرار کرو ہاں تو کہو بولو تو
وصل کا وعدہ اشاروں سے نہیں ہوتا ہے
شاہ بھی ہیں اسی دنیا میں گدا بھی عارفؔ
کوئی سائل تو کوئی تخت نشیں ہوتا ہے