ہجر غم کرب میں تنہائی رلاتی ہوگی
یاد میری بھی اسے پھر تو ستاتی ہوگی
اے ہوا جا کے خبر میرے صنم کی لانا
پاس توں اس کے گزر کے ہی تو جاتی ہوگی
کوئی مخلص مل اگر جائے تو پھر کیا کہنے
اپنے چہرے کو آنچل سے چھپاتی ہوگی
ہوتی ہوگی کبھی دستک کوئی دروازے پر
دوڑی بھاگی ہوئی دروازے پہ جاتی ہوگی
پیار سے تحفے دیے تھے تو غیمت سمجھے
تیر اپنی تو وہ نظروں کے چلاتی ہوگی
خون سے خط ہی لکھے تھے کبھی اس نے تو مجھے
یاد انگلی کی کٹی ہوئی دلاتی ہوگی
شوق سے گول گپے کھاتی تھی میں لاتا تھا
لا زمی گول گپے لے کے ہی کھاتی ہوگی
پیار کے دیپ جلائے تھے کبھی چاہت سے
اشک آنکھوں سے تو ہروقت بہاتی ہوگی
کیسے شہزاد سکوں ہوگا میسر اس کو
ہاتھ پر نام مرا لکھ کے مٹاتی ہوگی