ستم گروں کا کوئ قافلہ لگے ہے مجھے
ہجوم شہر ہی اب آئینہ لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اسطرح زندگی کا وجود
سفر حیات کا سارا سزا لگے ہے مجھے
ہر ایک شخص یہاں سنگ آشنا ہے ملا
ہر ایک شخص کوئ سانحہ لگے ہے مجھے
نظر اٹھاؤں تو ہر سمت ایک وحشت ہے
ہر ایک جسم میں محشر بپا لگے ہے مجھے
ہر ایک شخص کا چہرہ بجھا ہوا ہے یہاں
تمام شہر ہی خود سے خفا لگے ہے مجھے
جھلس گئی ہوں میں یوں خواہشوں کے صحرا میں
کہ بددعا دے کوئ تو دعا لگے ہے مجھے
نہ سمجھی بات کا مفہوم میں کسی کا کبھی
ہر ایک لفظ ہی نا آشنا لگے ہے مجھے