ہر ایک بات میں تیرا ہی تذکرہ نکلا
ترا خیال مرے دل میں جا بجا نکلا
کوئی فصیل بھی تو درمیاں نہ تھی اپنے
مگر وہ فاصلہ صدیوں کا فاصلہ نکلا
مرے تمام حوالے بھی اجنبی نکلے
مرے مزاج کا اک تو ہی آشنا نکلا
تمام عمر گزاری ہے رہ نوردی میں
جو راستہ بھی ملا ایک دائرہ نکلا
ہوئی نہ جیت کسی کی نہ کوئی مات ہوئی
جنون کا وہ خرد سے معاملہ نکلا
عجیب لوگ تھے سعدی خدا کی بستی کے
"کوئی خدا کوئی ہمسایۂِ خدا نکلا"