ہر سمت حادثہ یہاں کرب و بلا گیا
نکلا ہے خٰیمہ شام کو شہ کا بسا گیا
کیسے مٹے گا درد کا ظلم و ستم کا داغ
دیکھو فضاؤں پر بھی ہے یہ خوں بہا گیا
پیاسے تھے سب کے سب یہاں نہرِ فرات پر
ریگِ جفا پہ حسن کا سر تھا کٹا گیا
یوں ظلم ڈھائے دشت میں آلِ یزید نے
کچھ اس طرح جہان میں محشر بپا گیا
بس رہ گیا ہے دین یاں ابنِ علی کے بعد
مشکل سے پھر نجات کا روشن دیا گیا
دنیا میں کر دی روشنی وشمہ حضور نے
ـآدابِ زیست سارے جہاں کو سکھا گیا۔