ہر سمت سالِ نو کی ہوا چل پڑی ہے دوست
ماضی میں رہ گئی، جو مری زندگی ہے دوست
دیتا ہے درد،جو بھی نیا سال آتا ہے
بُننے لگی یہ پھر سے غموں کی لڑی ہے دوست
سوچا تری خوشی میں کروں کچھ اضافہ میں
یعنی کہ میری زندگی کم ہو گئی ہے دوست
ہر سمت روشنی ہے چراغاں ہے شہر میں
سنسان میرے دل کی مگر ہر گلی ہے دوست
ہر شب کو اس زمیں سے تجھے دیکھتا ہوں میں
تُو چاند بن کے عرش پہ کیا کر رہی ہے دوست
ہر سانس مجھ سے چھین کے اب پوچھتی ہے وہ
مرنے کی اتنی جلدی تجھے کیوں پڑی ہے دوست
تیری خوشی کے آگے مرے غم کی کیا بساط
تو خوش ہے اس لیے مجھے بے حد خوشی ہے دوست