ہر قدم گریزاں تھا‘ ہر نظر میں وحشت تھی
مصلحت پرستوں کی رہبری قیامت تھی
منزل تمنا تک کون ساتھ دیتا ہے
گردِ سعِی لا حاصل ہر سفر کی قسمت تھی
آپ ہی بگڑتا تھا‘ آپ من بھی جاتا تھا
اس گریز پہلو کی یہ عجیب عادت تھی
اُس نے حال پوچھا تو یاد ہی نہ آتا تھا
کِس کو کِس سے شکوہ تھا‘ کس سے کیا شکایت تھی
دشت میں ہواﺅں کی بے رُخی نے مارا ہے
شہر میں زمانے کی پوچھ گچھ سے وحشت تھی
یوں تو دن دہاڑے بھی لوگ لُوٹ لیتے ہیں
لیکن اُن نگاہوں کی اور ہی سیاست تھی
ہجر کا زمانہ بھی کیا غضب زمانہ تھا
آنکھ میں سمندر تھا‘ دھیان میں وہ صورت تھی