دل کشادہ ہیں لوگوں کے مگر جیب خالی ہے
بادشاہ قارون ہے مگر قوم سوالی ہے
کس پہ بھروسا کریں کہ سیاست میں یہاں
ہر شخص فریبی ہے ہر شکل جعلی ہے
کیا معلوم کہ مکر جائیں کب وعدوں سے یہ
سیاست گروں کی یہاں ہر ادا نرالی ہے
قوم ہے کہ دو وقت کی روٹی کو ترسے
حکومت ہے کہ دولت کی حواری ہے
ہم ہی تو ہیں کہ جس نے چنا ہے انہیں
ہم نے ہی تو خود پہ یہ قضا اتاری ہے
جس قوپ نے نہیں بدلی خود اپنی تقدیر
کب اس قوم کی اﷲ نے قسمت سنواری ہے
جان چکے پرکھ چکے کئی بار تم ان کو
اٹھو کہ اس بار باری تمہاری ہے