اٹھ واعظ کہ عالم جوانی ہے
کر لے موج کہ زندگی فانی ہے
در مہ کدہ پہ آ‘ انتظار ہے ہمیں
مذہب پہ کیوں تیری راجدھانی ہے
چار دن کی ہے یہ دنیا پیارے
اسی میں بسر کرنی زندگانی ہے
کر تو بھی عشق ساتھ ہمارے
کہ اس پہ ہماری حکمرانی ہے
حسیں کو دیکھ کے تھوکتا ہے تو
پھر بھی عرق تیری پیشانی ہے
مہ سے ہے نفرت تجھ کو مگر
آتی پر کیوں چشم میں مستانی ہے
معاف کر دے یہ گستاخیاں واعظ
یہ محض دل لگی و چھیڑ خانی ہے