ہمیں حسین ملاقات کی طلب رہے گی
گزاری مل کے تھی اس رات کی طلب رہے گی
کہ بات کا پتہ چل جاتا ہے قبیلے کا
اگر حسیں بھی ہو اوقات کی طلب رہے گی
خسارہ لطف ہمیں ہجر کرب دے رہا ہے
ہر لمحے ہم کو تو شادات کی طلب رہے گی
تمہیں ہی پیار تو بے لوث اس لیے کیا ہے
تمہیں تو پھر مرے جذبات کی طلب رہے گی
دیے تھے ہم نے کبھی فرط اشتیاق سے ہی
تمہیں انہی حسیں لمحات کی طلب رہے گی
لٹا دی ہم نے تو شہزاد اپنی دولت سب
کہ اشتیاق سے سوغات کی طلب رہے گی