ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں
تجھ کو بھولے ہیں تو دل داریٔ فن یاد نہیں
دل سے کل محو تکلم تھے تو معلوم ہوا
کوئی کاکل کوئی لب کوئی دہن یاد نہیں
عقل کے شہر میں آیا ہے تو یوں گم ہے جنوں
لب گویا کو بھی بے ساختہ پن یاد نہیں
اول اول تو نہ تھے واقف آداب قفس
اور اب رسم و رہ اہل چمن یاد نہیں
ہر کوئی ناوک و ترکش کی دکاں پوچھتا ہے
کسی گاہک کو مگر اپنا بدن یاد نہیں
وقت کس دشت فراموشی میں لے آیا ہے
اب ترا نام بھی خاکم بدہن یاد نہیں
یہ بھی کیا کم ہے غریب الوطنی میں کہ فرازؔ
ہم کو بے مہرئ ارباب وطن یاد نہیں