ہم خموشی کو ہاں سمجھتے ہیں
سب ہمیں خوش گماں سمجھتے ہیں
خوش گمانی میں طاق ہیں ہم تو
آپ کیوں بد گماں سمجھتے ہیں
گو حقیقت میں بات کچھ بھی نہیں
یہ مگر سب کہاں سمجھتے ہیں
آئینہ ہم تو دیکھتے ہی نہیں
خود کو اب تک جواں سمجھتے ہیں
پیار سے بات کر کے دیکھ ذرا
ہم یہی اک زباں سمجھتے ہیں
آپ شعلہ بیاں سہی لیکن
کیا ہمیں بے زباں سمجھتے ہیں
ان سے کرتے ہیں دل کی باتیں ہم
ہم انہیں رازداں سمجھتے ہیں
ہم نے صحرا کی خاک چھانی ہے
ریت کو کہکشاں سمجھتے ہیں
وصل کی بات ہم نہیں سمجھے
ہجر کی داستاں سمجھتے ہیں
ہم کو سعدی تو نا سمجھ نہ سمجھ
ہم بھی سود و زیاں سمجھتے ہیں