ہم سے جو وہ مفر ہو گئی
اُسکی ہر ادا گل تر ہو گئی
ہماری آہ بھی کسی نے نہ سُنی
اُسکی ہر بات با اثر ہو گئی
کبھی نظر آنا کبھی آنکھوں سے اوجھل
ہمارے سامنے ہی وہ ساحر ہو گئی
بارش کے موسم میں وصالِ یار
وہ آیا ہی تھا کہ سحر ہو گئی
جادو ایسا کے خواب میں بھی نہ ملے
ناکام ہماری خوابوں کی لہر ہو گئی
اُسکو کہا ہوگا ہمارا خیال
ہمارے لیے ہی وہ تصور ہو گئی
اسُکے فراق میں پاگل ہوا ارسلان
مشہور یہ بات شہر در شہر ہو گئی