ہم چلے جائیں گے پھر حال ترا کیا ہوگا
ہم نہ ہوں گے تو ترے گھر میں اندھیرا ہوگا
پھول کے بدلے جو اس شوخ نے پھینکا ہوگا
دل کا آئینہ اسی سنگ سے ٹوٹا ہوگا
کس کو احساس دلانے کو چلے آئے ہو
کس کو اس شہر میں اب تم پہ بھروسہ ہوگا
اب ذرا سوچ سمجھ کر ہی سہارا ڈھونڈو
خشک پیڑوں کا یہ سایہ بھی ادھورا ہوگا
لوگ محلوں میں بسیروں کے تمنائی ہیں
میری تقدیر میں مٹی کا گھروندا ہوگا
پھول چن چن کے تو پتھرا گئیں آنکھیں اپنی
کب کسی جھیل سی آنکھوں کا نظارا ہوگا
مجھ کو شہرت کی ضرورت نہیں افسر دکنیؔ
میری غزلوں کا ہر اک بزم میں چرچا ہوگا