کہا، دل کی کوئی قیمت نہیں ہے
کہا، فقرہ پرانا ہو گیا ہے
کہا، جنت میں ہم تم ساتھ ہوں گے
کہا، تجھ کو بھی دھوکا ہو گیا ہے؟
کہا، چاہت نہیں تو غم عطا ہوں
کہا، اُن کا بھی سودا ہو گیا ہے
کہا، اپنا تھا جو اُس کو ہوا کیا؟
کہا، وہ اب پرایا ہو گیا ہے
کہا، مانگا ہے تجھ کو ہر دعا میں
کہا، جو کچھ تھا لکھّا، ہو گیا ہے
کہا، گیتوں میں تجھ کو قید کر لوں؟
کہا، ناداں تجھے کیا ہو گیا ہے
کہا، آتا نہیں جینا تِرے بِن
کہا، جا تُو نکما ہو گیا ہے
یہ کہہ کر چل دیا ظالم مگر پھر
مڑا اور مڑ کے دیکھا ایک پَل کو
نظر میں اِک شرارت موجزن تھی
شرارت وہ کہ جس کے سِحْر میں گم
بظاہر بُت بنا بیٹھا ہوں لیکن
"دروں کہرام برپا ہو گیا ہے"
- اِبنِ مُنیبؔ
(آخری مصرع محترم اکرام اعظم کا ہے)