ہم ہی گرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
کتنے معصوم ہیں طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں
دور تک دھول میں لپٹی ہے وفا کی منزل
چلتے چلتے مرے پاؤں میں تو چھالے ہوئے ہیں
میں نے دیکھا جو کہیں اڑتی ہوئی تتلی ہے
انہیں رنگوں سے تو باغوں میں اجالے ہوئے ہیں
جن کی راہوں میں اندھیرے نے بڑے ظلم کئے
وہی تو شمعِ محبت کو سنبھالے ہوئے ہیں
کچھ صدف جن کی خطا تھی نہ کوئی جن کا قصور
وہی معصوم تو زندان میں ڈالے ہوئے ہیں
ہر طرف رنگوں کے چرچے ہیں مری جان سنو !
خود ہی کچھ پھول خزاؤں کے حوالے ہوئے ہیں
لو چلو ختم ہوئے رستے سبھی ناطے سبھی
دل کے خانوں میں جو مدت سے سنبھالے ہوئے ہیں
آرزو کے وہ کبوتر بھی ہیں نالاں ہم سے
دل کے خانوں میں جو اک عمر سے پالے ہوئے ہیں
آنکھیں بھی اشکوں سے خالی ہیں تری فرقت میں
صبر سے کتنے ترے درد سنبھالے ہوئے ہیں