خدا کی زمیں پر خدا بن کے لوگوں
نہ پہلے رہا ہے نہ اب رہ سکے گا
قہر ڈھانے والا قہر ڈھا کے ہم پر
نہ پہلے بچا تھا نہ اب بچ سکے گا
لہو بیکسوں کا یہاں پر کبھی بھی
کوئی پی سکا تھا نہ اب پی سکے گا
ہمیں دے کے دکھ یاں کوئی بھی ستمگر
نہ سکھ سے رہا ہے نہ اب رہ سکے گا
دیا ہم کو د ھوکہ جب بھی کسی نے
سکوں کو تڑپتا ہے تڑپا کرے گا
ہمیں غم کا تحفہ دیا جب کسی نے
خوشی کو ہے ترسا ترستا رہے گا
د غا ہم سے ماضی میں جس نے کری ہے
پنپ نہ سکا ہے پنپ نہ سکے گا
ہمیں ڈسنے والے ہر اک ناگ کا پھن
کچلا گیا ہے، کچلا جاتا رہے گا
میرے شہر کو جس نے لوٹا اجاڑا
نہ پہلے بسا تھا نہ اب بس سکے گا
کراچی میں جس نے بھی غارت مچائی
نہ پہلے جیاء تھا نہ اب جی سکے گا
یہاں پر اشہر جسکا سکّہ بٹھا ہے
وہ چلتا رہا ہے وہ چلتا رہے گا