ہنستے ہوئے ماں باپ کی گالی نہیں کھاتے
بچے ہیں تو کیوں شوق سے مٹی نہیں کھاتے
تم سے نہیں ملنے کا ارادہ تو ہے لیکن
تم سے نہ ملیں گے یہ قسم بھی نہیں کھاتے
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
بچے بھی غریبی کو سمجھنے لگے شاید
اب جاگ بھی جاتے ہیں تو سحری نہیں کھاتے
دعوت تو بڑی چیز ہے ہم جیسے قلندر
ہر ایک کے پیسوں کی دوا بھی نہیں کھاتے
اللہ غریبوں کا مددگار ہے راناؔ
ہم لوگوں کے بچے کبھی سردی نہیں کھاتے