ترے میں اب تو رہی بات وہ نہیں ہے دوست
ہوئی یہ اپنی ملاقات وہ نہیں ہے دوست
چلے ہی آؤ پکارا ہے یاد بھی کیا ہے
مری تو آنے کی اوقات وہ نہیں ہے دوست
نصیب میں لکھی تھی خوشی گئی تھی مل
کہ آنی زیست میں پھر رات وہ نہیں ہے دوست
خلوص بھی تھا بہت پیار سے ہی لائے تھے
یہ پہلے والی مراعات وہ نہیں ہے دوست
تھا اشتیاق محبت ہو کم گئی ہے کیوں
ہوئی تھی پھولوں کی برسات وہ نہیں ہے دوست
خوشی منائی ہے شہزاد اس لیے میں نے
ملی تھی درد کی سوغات وہ نہیں ہے دوست