ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے
دیے کی روح میں کیا چیز جلتی رہتی ہے
کسے خبر کہ یہ اک دن کدھر کو لے جائے
لہو کی موج جو سر میں اچھلتی رہتی ہے
اگر کہوں تو تمہیں بھی نہ اعتبار آئے
جو آرزو مرے دل میں مچلتی رہتی ہے
مدار سے نہیں ہٹتا کوئی ستارا کیوں
یہ کس حصار میں ہر چیز چلتی رہتی ہے
وہ آدمی ہوں ستارے ہوں یا تمنائیں
سمے کی راہ میں ہر شے بدلتی رہتی ہے
یونہی ازل سے ہے امجدؔ زمین گردش میں
کبھی سحر تو کبھی رات ڈھلتی رہتی ہے