ہوتا ہے بدگمان وہ اتنا کبھی کبھی
بہتا ہے الٹی سمت میں دریا کبھی کبھی
قسمت پہ اتنا بھی نہ کرو اعتبار تم
کرتا ہے بے وفائ ستارا کبھی کبھی
کس پل میں کیا ہو،اور ہوکس پل میں کیا پتہ
لگتا نہیں پتہ مجھے تیرا کبھی کبھی
ہوتی نہیں ہے روز سخاوت جناب کی
ہوتا ہے اس طرف سے اشارہ کبھی کبھی
چاروں طرف ہے شور گھٹی سی پکار کا
بہری سماعتوں کو ہے شکوہ کبھی کبھی
بازی لگا کے داؤ پہ رکھے جو زندگی
جیتا بھی ہے ضرور جو ہارا کبھی کبھی
یوں تو ہمیشہ میری سماعت تھی منتظر
یہ اور بات .........تم نے پکارا کبھی کبھی