فضاء کو چیرتی ، چلاتی گھڑ گھڑاہٹ پے
زمیں پہ خوف سے طاری سی تھر تھراہٹ ہے
عذاب لے کے فرشتوں کے جھنڈ جب اترے
ان ہی پروں سے بلند ہوتی پھر پھراہٹ ہے
دلوں کے چیر کے ، نابود کردے ہر شئے کو
مہیب صوت کی صورت یہ خر خراہٹ ہے
قہر کے کوڑے برستے ہوئے ادھر دیکھے
یہ بجلیوں میں ان ہی کی تو کڑ کڑاہٹ ہے
خدا کے دین سے دوری قہر ہی لاتی ہے
ہوا کے دوش پہ کہتی یہ سر سراہٹ ہے
سنی ہے کس نے نجات و فلا ح کی بات یہاں
یہ حق کی بات تو مجنوں کی بڑ بڑاہٹ ہے
خدا کی شان اشہر کیسے میں بیان کروں
زبان گنگ ہے ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہے