ہے عکس روئے یار دل داغ دار میں
کچھ تیرگی نہیں ہے ہمارے مزار میں
کچھ ایسے محو ہو گئے اقرار یار میں
لطف انتظار کا نہ ملا انتظار میں
دوچند اس سے حسن پہ ان کو غرور ہے
جتنا نیاز و عجز ہے مجھ خاکسار میں
وہ پیاری پیاری شکل وہ انداز دل فریب
رہتا نہیں ہے دیکھ کے دل اختیار میں
ایسی بھری ہیں یار کے دل میں کدورتیں
نامہ لکھا ہے مجھ کو تو خط غبار میں
ہم کچھ وصف کاکل پیچاں نہ لکھ سکے
مضموں الجھ رہے ہیں قلم مشکبار میں
کچھ بھی نہ اس کی وعدہ خلافی کا رنج ہو
آ جائے موت ہی جو شب انتظار میں
اے موت تو ہی آ نہ آئیں گے وہ کبھی
آنکھیں ہیں اک عرصے سے وا انتظار میں
سمجھو کہ کس کو کہتے ہیں تکلیف انتظار
بیٹھو کبھی جو دیدۂ خوننابہ یار میں
سودائے زلف و رخ میں غضب کا ہے انتظار
اب آ گئے ہیں گردش لیل و نہار میں
بیٹھے ہیں آج آپ تو پہلو میں غیر کے
ہم ہوں گے کل عروس اجل کے کنار میں
مٹ کر ہوں خاک سرمہ کی مانند بھی اگر
پھر بھی کبھی سمائیں نہ ہم چشم یار میں
کہنے لگے کہ آپ کی نیت تو ٹھیک ہے
بیتاب مجھ کو دیکھ کے بوس و کنار میں
شکوہ کریں تو کیا کریں جور و جفا کا ہم
سب عمر کٹ گئی ستم روزگار میں
مرنے کے بعد بھی ہے وہی کشمکش خدا
میں قبر میں ہوں دل مرا ہے کوئے یار میں
تقدیر کے لکھے کو مٹانا محال ہے
کیا دخل ہے مشیت پروردگار میں
بجلی سی کوند جاتی ہے گھونگھٹ کی آڑ میں
کیا شوخیاں ہیں اس نگہ شرمسار میں
دعوائے عاشقی پہ یہ کہنے لگا وہ بت
اللہ کی شان !آپ بھی ہیں اس شمار میں
پامال کیجئے گا سمجھ کر خدا اسے
ہے آپ ہی کا گھر دل بے اختیار میں
سودا نیا ، جنوں ہے نیا ، ولولے نئے
اب اور ہی بہار ہے اب کے بہار میں
دل پر لگی وہ چوٹ کہ اف کر کے رہ گئے
ٹوٹا جو گرکے جام کوئی بزم یار میں
گر ان پہ اختیار نہیں ہے نہیں سہی
غم ہے یہی کہ دل بھی نہیں اختیار میں
اے دل خدا کی یاد میں اب صرف عمر ہو
کچھ کم پھرے صنم کدۂ روزگار میں