ہے یہی میری دعا مجھ سے کبھی ہوں آشنا
زندگی کے راز جو دل میں تھے تیرے دلربا
وہ بنا دیتے ہیں سونا پاس جائیں گر کبھی
روح اپنی جسم اپنا دنیا میں اہل صفا
انجمن تھی تم سے قائم تُو گیا سب کچھ گیا
آشیاں ویران کرکے اب یہی ہوں سوچتا
تجھ سے قائم دل کا رشتہ روح کا اور ذات کا
ذوق مستی شوق تُو ہے تُو ہے منزل باخدا
شام ہونے کو ہے آئی کام باقی ہے ابھی
کیسے جاؤں گھر کو اپنے چھوڑ کر تو ہی بتا؟
فتنے بڑھتے جا رہے ہیں چار سُو عالم میں اب
اک مسیحا بھیج کر فتنوں کو دنیا سے مٹا
دل مرا پتھّر نہیں ہے خواہشوں سے ہے بھرا
حسن, جلوہ ,دید تیری مجھ کو ساقی بھی دکھا
میرے محسن پھول کلیاں سب ہیں تیری منتظر
تیری آمد کی خوشی میں گھر کو رکھا ہے سجا
دل فسردہ سا ہے عامر خار لگتا ہے جہاں
سوچ کر ارض و سما کو بھی تو ہونا ہے فنا