یوں وہ دل کو جلا کے سوتے ہیں
ہم سے نظریں چُرا کے سوتے ہیں
ڈر کے خوابوں میں جاگنے والے
درد اپنے چُھپا کے سوتے ہیں
اِک تمَکُّن ہے اُن کے سونے میں
وہ جو سب کچھ لُٹا کے سوتے ہیں
ظلم اِتنا ہے چار سُو مولا
گُرگ آنسو بہا کے سوتے ہیں
پھر بھی ہوتے ہیں راکھ پروانے
گو وہ شمعیں بُجھا کے سوتے ہیں
روز تنہائیوں کی محفل میں
شعر اپنے سُنا کے سوتے ہیں
پَل کو مِلتا نہیں سکوں ورنہ،
تیری یادیں بِچھا کے سوتے ہیں!
نیند کر لیں مُنیبؔ بچپن کی؟
آؤ سب کچھ بُھلا کے سوتے ہیں