یہاں ستم کی فریاد نہیں دی جاتی
اور خوشیوں کو بنیاد نہیں دی جاتی
یہ وقت، وہ وقت، نہیں رہا اب
اب کسی کو شاد نہیں دی جاتی
چند خوشیاں تو بانٹ لیتے ہیں دوستوں میں
لیکن کسی کی تلخ یاد نہیں دی جاتی
اب زمانہ بہت خود پرست ہوا ہے
کسی کی کامیابی پہ صاد نہیں دی جاتی
ہزاروں روپے لگ جاتے ہیں آرائش و جمال میں
لیکن کسی غریب کو امداد نہیں دی جاتی
یہ اِکِسویں صدی کے لوگ ہیں ارسلؔان
یہاں سُخن پہ داد نہیں دی جاتی