یہی آرزو ہے اپنی کہ رہے غمِ زمانہ
نہ ہو زندگی کا مقصد رہے بس یہ آب و دانہ
یہ جو زندگی ہے اپنی ہو چراغِ راہ جیسی
ملے روشنی سبھی کو وہ ہو اپنا یا بیگانہ
کوئی راہ سے ہو بھٹکا اسے راہ بھی دکھانا
بجھے پیاس تشنہ لب کی یہ ہو جذبہ والہانہ
رہے فکر اب چمن کی نہ کبھی بھی بے حسی ہو
یہ چمن پھلے و پھولے نہ کبھی بھی ہو ویرانہ
جو ہو طرز ہم سبھی کا وہ رہے ہی مشفقانہ
نہ کسی کے غم سے اپنا کبھی دل رہے بیگانہ
کبھی آندھی ہو یا طوفاں نہ قدم ہی ڈگمگائے
یہی شیوہ ہے جری کا کہ قدم ہو غازیانہ
یہ ہے اثر کی تمنا یہ ہی جستجو ہے اس کی
جو سخن کبھی ہو اس کا ہو ہمیشہ ناصحانہ