یہ خاک جس پہ آج مرا ذوق جبیں ہے
اس خاک سے بڑھ کر کوئی پتھر نہ نگیں ہے
وہ آ رہا ہے مجھکو نظر گنبد خضری
پلکوں کو جھپکنا ابھی منظور نہیں ہے
سوچیں مری اس خواب سے آگے نہیں جاتیں
یہ خلدہے فردوس ہے یہ عرش بریں ہے
اسکی نہیں مثال کوئی کائنات میں
یہ ارض مدینہ ہے۔ ستارہ نہ زمیں ہے
بیٹھا ہوں میں حضور کے قدموں کی دھول میں
اب مجھ سے بڑھ کے کون یہاں تخت نشیں ہے
ہرآرزو کی آرزو ہے انکی خاک پا
مدت سے ہر خیال مدینے کا مکیں ہے
رنگ و نسل فریب ہے۔چہرے سراب ہیں
اس خاک میں جو ڈوبے وہی اصل حسیں ہے