یہ تیر جان بوجھ کے کھایا نہ جائے گا
اس رابطے کو اور بڑھایا نہ جائے گا
اب آستیں میں سانپ کی کوئی جگہ نہیں
بازو پہ اب کسی کو سلایا نہ جائے گا
دل چاہئیے ہے آپ کو حاضر ہے دل مرا
بس شرط یہ ہے اِس کو دُکھایا نہ جائے گا
اُس روشنی سے بھیک تُجھے مل گئی اگر
صدیوں ترا چراغ بُجھایا نہ جائے گا
آنکھوں میں یہ چمک ہے اُسی چاند سے عمیر
کھڑکی سے اب نظر کو ہٹایا نہ جائے گا