یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
Poet: Sahir Ludhianvi By: yusrah, khi
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا
جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے
باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا
دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا
یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا
ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے
الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا
More Sahir Ludhianvi Poetry
بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے بھولے سے محبت کر بیٹھا، ناداں تھا بچارا، دل ہی تو ہے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے
سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے
جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے
دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارا، دل ہی تو ہے
بیداد گروں کی ٹھوکر سے سب خواب سہانے چور ہوئے
اب دل کا سہارا غم ہی تو ہے اب غم کا سہارا دل ہی تو ہے
ہر دل سے خطا ہو جاتی ہے، بگڑو نہ خدارا، دل ہی تو ہے
اس طرح نگاہیں مت پھیرو، ایسا نہ ہو دھڑکن رک جائے
سینے میں کوئی پتھر تو نہیں احساس کا مارا، دل ہی تو ہے
جذبات بھی ہندو ہوتے ہیں چاہت بھی مسلماں ہوتی ہے
دنیا کا اشارہ تھا لیکن سمجھا نہ اشارا، دل ہی تو ہے
بیداد گروں کی ٹھوکر سے سب خواب سہانے چور ہوئے
اب دل کا سہارا غم ہی تو ہے اب غم کا سہارا دل ہی تو ہے
سہرش
اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا تجھے کیا پیش کروں
تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں
یا ترے درد جدائی کا گلا پیش کروں
میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو
کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں
جو ترے دل کو لبھائے وہ ادا مجھ میں نہیں
کیوں نہ تجھ کو کوئی تیری ہی ادا پیش کروں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا تجھے کیا پیش کروں
تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں
یا ترے درد جدائی کا گلا پیش کروں
میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو
کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں
جو ترے دل کو لبھائے وہ ادا مجھ میں نہیں
کیوں نہ تجھ کو کوئی تیری ہی ادا پیش کروں
سارہ نوید
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
nafeesa
Tang Aa Chuke Hain Kashmakash-E-Zindagi Se Hum Tang Aa Chuke Hain Kashmakash-E-Zindagi Se Ham
Thukra Na Den Jahan Ko Kahin Be-Dili Se Ham
Mayusi-E-Ma.Al-E-Mohabbat Na Puchhiye
Apnon Se Pesh Aa.E Hain Beganagi Se Ham
Lo Aaj Ham Ne Tod Diya Rishta-E-Umid
Lo Ab Kabhi Gila Na Karenge Kisi Se Ham
Ubhrenge Ek Baar Abhi Dil Ke Valvale
Go Dab Ga.E Hain Bar-E-Ġham-E-Zindagi Se Ham
Gar Zindagi Men Mil Ga.E Phir Ittifaq Se
Puchhenge Apna Haal Tiri Bebasi Se Ham
Allah-Re Fareb-E-Mashiyyat Ki Aaj Tak
Duniya Ke Zulm Sahte Rahe khamushi Se Ham
Thukra Na Den Jahan Ko Kahin Be-Dili Se Ham
Mayusi-E-Ma.Al-E-Mohabbat Na Puchhiye
Apnon Se Pesh Aa.E Hain Beganagi Se Ham
Lo Aaj Ham Ne Tod Diya Rishta-E-Umid
Lo Ab Kabhi Gila Na Karenge Kisi Se Ham
Ubhrenge Ek Baar Abhi Dil Ke Valvale
Go Dab Ga.E Hain Bar-E-Ġham-E-Zindagi Se Ham
Gar Zindagi Men Mil Ga.E Phir Ittifaq Se
Puchhenge Apna Haal Tiri Bebasi Se Ham
Allah-Re Fareb-E-Mashiyyat Ki Aaj Tak
Duniya Ke Zulm Sahte Rahe khamushi Se Ham
Khawaja Mussadiq Rafiq
جو لطف مے کشی ہے نگاروں میں آئے گا جو لطف مے کشی ہے نگاروں میں آئے گا
یا با شعور بادہ گساروں میں آئے گا
وہ جس کو خلوتوں میں بھی آنے سے عار ہے
آنے پہ آئے گا تو ہزاروں میں آئے گا
ہم نے خزاں کی فصل چمن سے نکال دی
ہم کو مگر پیام بہاروں میں آئے گا
اس دور احتیاج میں جو لوگ جی لئے
ان کا بھی نام شعبدہ کاروں میں آئے گا
جو شخص مر گیا ہے وہ ملنے کبھی کبھی
پچھلے پہر کے سرد ستاروں میں آئے گا
یا با شعور بادہ گساروں میں آئے گا
وہ جس کو خلوتوں میں بھی آنے سے عار ہے
آنے پہ آئے گا تو ہزاروں میں آئے گا
ہم نے خزاں کی فصل چمن سے نکال دی
ہم کو مگر پیام بہاروں میں آئے گا
اس دور احتیاج میں جو لوگ جی لئے
ان کا بھی نام شعبدہ کاروں میں آئے گا
جو شخص مر گیا ہے وہ ملنے کبھی کبھی
پچھلے پہر کے سرد ستاروں میں آئے گا
zia
بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے بہت گھٹن ہے کوئی صورت بیاں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے
ملال یہ ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے
ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی
جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے کم سے کم فغاں نکلے
فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے
ملال یہ ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے
ادھر بھی خاک اڑی ہے ادھر بھی خاک اڑی
جہاں جہاں سے بہاروں کے کارواں نکلے
Nabeel






