یہ ناز ،تاج سجا کر ،جو خود پہ کرتے ہو
یہ فخر، اپنی ملمع کا جو دم بھرتے ہو
یہ اس کی ذات کی تم پر ہیں عنایات ہوئیں
مگر ستم ہے تمھیں پھر بھی شکایات ہوئیں
بلند گھر تو بنائے گئے تھے، پہلے بھی
تھے گرفتار اپنے دام میں کچھ، پہلے بھی
وہ عادتھے ،مگر ثمود بھی کچھ کم نہ رہے
محل سجا تو لئے ، بت میں مگر دم نہ رہے
وہ ذات واحد و قھار ہے، وہ بھول گئے
کچھ ایسے ذات میں الجھے ،خدا کو بھول گئے
سجائے سجائے محلات میں نہ رہ پائے
خدا کے غیض و غضب سے وہ نہیں بچ پائے
تو آج اوج کمالات کے تم خوا ہاں ہو
چلے ہو راہ اسی پر،بڑے ہی ناداں ہو
جو چاہتے ہو بلندی،یہاں نہیں ملتی
وہ تخت و تاج کی شوکت یہاں نہیں ملتی
اسی کے سامنے جھک جاو تو معراج ملے
کچه عاجزی کا ہنر لاو تو معراج ملے
تم اس کے سامنے عرشی حقیر ٹھہری ہو
اسی کے در سے لگے جو فقیر، ٹھہری ہو